ایکٹ 2010ء کے تحت بحال سرکاری ملازمین کی برطرفی پر فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایکٹ 2010ء کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا، جو بروز جمعہ صبح ساڑھے گیارہ بجے سنایا جائے گا۔

جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ایکٹ 2010 ء کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اور دیگر کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اپنی دی گئی تجاویز میں دو وضاحتیں پیش کرنا چاہتا ہوں، جن ملازمین کو مس کنڈکٹ یا ڈیوٹی سے غیر حاضری پر نکالا گیا ان پر ہماری تجاویز کا اطلاق نہیں ہوگا، اگر تمام  ملازمین کے وکلاء حکومتی تجاویز کی حمایت کرتے ہیں تو ان پر عمل ہو گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ملازمین کے وکلاء کو حکومت کی تجاویز پر اعتراض ہے تو ہم واپس لے لیں گے، اگر عدالت نظر ثانی منظور نہیں کرتی تو تجاویز برقرار ہیں، عدالت سے استدعا یہی ہے کہ نظر ثانی درخواستیں منظور کرے اور فیصلہ دے۔اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مسٹر اٹارنی جنرل، اپنے دماغ میں یہ بات رکھیں کہ موجودہ کیس کا رنگ بدل چکا ہے، موجودہ کیس نظر ثانی کی حدود سے باہر نکل چکا ہے، موجودہ کیس نظر ثانی ہے لیکن ہم نے نئے سرے سے قانون کی تشریح شروع کی، ملازمین کے کیس میں بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے، ہماری کوشش انصاف اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہے، ہمارے لیے آئین اور قانون ہی سب کچھ ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سرکاری محکموں میں تقرریوں کے چند بنیادی اصول ہیں، حکومت تقرریوں کے ان اصولوں پر عمل کرنے کی پابند ہے، تقرریوں میں شفافیت کے لیے اشتہار، ٹیسٹ اور میرٹ ضروری ہیں، عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سرکاری محکموں میں نوکریوں کی بندر بانٹ نہ ہو، گریڈ ایک سے سات تک کی تقرریوں کی کوالیفیکیشن سخت نہیں ہوتی، ایسی بھرتیوں کا بھی اشتہار ہونا چاہیے، ہم بنیادی حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں، سب ججز متفق ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا کیس ہے، آرٹیکل 3/184  کا اچھا کیس تھا لیکن مرکزی کیس میں اس کا اطلاق ہو چکا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور آئینی حدود کی پابند ہے، عدالت گزشتہ 30 سالوں سے بھرتیوں کے طریقہ کار پر عملدرآمد کرا رہی ہے، عدالت میرٹ اور شفاف بھرتیوں پر کئی فیصلے دے چکی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اوگرا کیس میں ایک بہترین فیصلہ دیا تھا، حکومت نے اپنی تجاویز میں تسلیم کیا کہ قواعد کو مدنظر نہیں رکھا گیا، ملازمین کی بھرتی کے طریقہ کار پر عمل کرنا ضروری ہے، آئین و قانون کے مطابق طریقہ کار پر عمل ضروری ہے، ہمیں تضادات میں نہیں پڑنا چاہیے، ان لوگوں کو جب نکالا گیا ان کے حقوق متاثر ہوئے، ملازمین کی بھرتی کے وقت بھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی، برطرف ملازمین سے ہمدردی ہے مگر عدالت نے آئین و قانون کو دیکھنا ہے، سہولت بھی دینا ہوگی تو آئین کے مطابق دیں گے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومتی تجاویز جائزہ لیں گے لیکن فیصلہ  آئین و قانون کے  مطابق ہوگا، یقینی بنائیں گے کہ آئینی اداروں میں کوئی غیر آئینی طریقے سے داخل نہ ہو۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، ہم آپ کی جانب سے ایکٹ پر ٹھوس دلائل دیے جانے کے خواہش مند تھے، ملازمین 1997 سے 1999 کے درمیان نکالے گئے، ملازمین نے دس گیارہ سالوں میں نئی ملازمتیں یا کام بھی کیے، قانون ریاست کے دیے گئے قوانین کا محافظ ہوتا ہے، اگر آج آپ نے ایکٹ پر معاونت کی تو ٹھیک، ورنہ عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی، فیصلہ وہی ہوگا جو آئین قانون اور عوام کے مفاد میں ہوگا۔اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ عدالت کی کوئی فائنڈنگ نہیں یہ بھرتیاں طریقہ کار کے خلاف ہوئیں، ہر شہری کو تقرریوں کے عمل تک رسائی ہونی چاہیے، ملازمین کے بحالی کے قانون پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی ، عدالت 2010 کے قانون کو مختلف انداز سے دیکھے، قانون کو خلاف ضابطہ برطرفیاں واپس لینے کے قانون کے طور پر پڑھا جائے، اس انداز میں قانون کو دیکھنے سے اسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، قانون کو اس انداز میں پڑھنے سے ملازمین 1997 والی سطح پر بحال ہو جائیں گے، ملازمین کی 96 -1993 تک ہونے والی بھرتیاں کسی نے چیلنج نہیں کی تھیں، یہ تعین کہیں نہیں ہوا کہ ملازمین کی بھرتیاں قانونی تھیں یا نہیں، بحالی کے قانون میں ملازمین کو اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی تھی، عدالت قانون بحال کرتے ہوئے اگلے گریڈ میں ترقی نہ دے۔اس دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ مفروضوں پر بات کر رہے ہیں، متعلقہ ادارے ہی اس حوالے سے اصل صورتحال بتا سکتے ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کسی کی پروموشن جاتی ہے تو چھ ہزار ساتھیوں کیلئے قربانی دیدے۔ Square Adsence 300X250

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button