
عدالتِ عظمیٰ نے استفسار کیا کہ ’ای سی ایل رولز کے سیکشن دو میں کیسے ترمیم کی گئی؟‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت میں کہا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس عدالت میں پیش کردوں گا، دیکھ لیتے ہیں کہ کیا وہ ممبران جن کے نام ای سی ایل میں تھے وہ ترمیم والی کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے یا نہیں؟ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم تجویز کی۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔ عدالت میں وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب کے کیس کی پیروی کرنے والے ایف آئی اے کے افسران کے تبادلے سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ’ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا ہے۔‘’وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کومعطل کیا۔بظاہر ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے۔‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پراسیکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ نیب کا تمام ریکارڈ مکمل محفوظ ہے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ’ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی کا تمام ریکارڈ بھی محفوظ ہے۔ عدالت نے ریکارڈ محفوظ ہونے کا ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے سرٹیفیکیٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ریکارڈ میں کمی بیشی ہوئی تو ڈی جی ایف آئی اے ذمہ دار ہوں گے۔‘
وزیراعظم کے وکیل عرفان قادر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ ملک میں دو سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے، دو پارٹیوں کی کشیدگی کے درمیان عدالت ہے۔ میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی شخصیات کے حوالے سے تفصیل میں نہیں جائیں گا آپ نے کچھ کہنا ہے تو لکھ کر دے دیں۔ عدالت کسی کا انفرادی کیس نہیں بلکہ سسٹم کو دیکھ رہی ہے۔ آپ کی معاونت کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔