
سابق سفیر کے مطابق جب تک افغانستان میں پائیدار امن نہیں آتا مذاکرات زیادہ معنی نہیں رکھتے (فوٹو اے ایف پی)
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پر بھی افغانستان کی موجودہ حکومت کی طرف سے صلح کے لیے دباؤ ہے۔ تاہم جب تک ٹھوس چیزیں سامنے نہیں آتیں کچھ کہنا مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانیوں کے خلاف بڑے جرائم کیے ہیں اگر ان کو معاف کیا جاتا ہے تو پھر دوسرے گروہ بھی کہیں گے انہیں معاف کر دیا جائے۔‘سابق سفیر کے مطابق جب تک افغانستان میں پائیدار امن نہیں آتا مذاکرات زیادہ معنی نہیں رکھتے کیونکہ اگر افغانستان میں مکمل امن ہو جاتا ہے اور موجود حکومت کا کنٹرول مستحکم ہو جاتا ہے تو پھر ٹی ٹی پی کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔حکومت غلطی کر رہی ہے: سابق سیکرٹری فاٹادفاعی تجزیہ کار اور سابق فاٹا کے امور کے لیے ماضی میں سیکریٹری کے عہدے پر کام کرنے والے بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت اور طالبان کی بات چیت غیر ضروری ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ محمود شاہ خود بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک رہے ہیں۔’حکومت غلطی کر رہی ہے۔ ماضی سے سبق سیکھا جاتا تو مذاکرات نہ کیے جاتے۔‘ان کے مطابق مشرف کے زمانے میں صوبائی گورنر لیفٹیننٹ جنرل ( ریٹائرڈ) علی محمد جان اورکزئی اور مقامی طالبان کا معاہدہ ہوا تھا جو ناکام رہا تھا اور گورنر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
محمود شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگ واپس پاکستان آ کر نارمل زندگی گزاریں (فوٹو اے ایف پی)
’ہمارے وقت میں طالبان کمانڈر نیک محمد سے مذاکرات ہوئے تھے۔ میں اس کے حق میں نہیں تھا پھر بھی مذاکرات ہوئے جو ناکام ہوئے تھے۔‘
بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگ واپس پاکستان آ کر نارمل زندگی گزاریں۔’ان لوگوں نے مقامی سرداروں کو قتل کیا ہے بچوں کو قتل کیا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ انہیں نارمل زندگی گزارنے دیں؟‘ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی کے لوگوں کو واپس آنے دیا گیا تو مزید خون خرابہ ہو گا کیونکہ مقامی آبادی میں ان کے خلاف شدید جذبات ہیں۔مقامی لوگوں کو بھی مذاکرات کا حصہ بنایا جائے گا: فواد چوہدریمعاہدے اور مذاکرات سے سرحدی علاقوں میں ممکنہ بے چینی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے واضح کیا کہ ’جو مذاکرات ہوں گے ان میں مقامی لوگوں کو شامل کیا گیا ہے اور جو مقامی لوگ متاثر ہوئے ہیں، ان کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا گیا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’آپ کو بالآخر سمجھوتے کی جانب جانا ہے۔ ریاست مسلسل جنگ نہیں لڑ سکتی۔ وہاں کی عورتوں اور بچوں کا کیا قصور ہے اگر ان کے والد یا کوئی اور رشتہ جنگ میں شامل ہوئے ہیں۔‘