
بہت سے اولمپیئن کھلاڑیوں اور سپورٹس کی دنیا کے کئی مؤرخین کے مطابق Title IX Law کہلانے والا یہ تاریخی قانون امریکہ میں 23 جون 1972ء کے روز منظور کیا گیا تھا اور اس کے بعد ایک ایسا رجحان شروع ہوا کہ دنیا بھر میں کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کا عالمی منظر نامہ پوری طرح بدل گیا۔
بھارت، خواتین کھلاڑیوں کی جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ
آج سے ٹھیک نصف صدی قبل امریکہ میں کی جانے والی اس قانون سازی میں طے یہ کیا گیا تھا کہ وہ تمام تعلیمی منصوبے، جن کے لیے مالی وسائل واشنگٹن میں وفاقی حکومت مہیا کرے، ان تمام پروگراموں میں خواتین کو بھی شرکت کے مساوی حقوق دینا لازمی ہو گا۔ ان تعلیمی شعبوں میں ہر قسم کے کھیل بھی شامل تھے۔
سپورٹس مقابلوں میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے انقلاب
امریکہ میں تعلیم سے متعلق شماریات کے قومی مرکز کے مطابق ملکی سطح پر یہ قانون سازی اتنا بڑا سنگ میل تھی اور عالمی سطح پر بہت سے معاشروں میں اس کے بالواسطہ اثرات اتنے جامع تھے کہ 23 جون 1972ء کے بعد سے دنیا کی نصف آبادی کی سپورٹس پروگراموں اور مقابلوں میں شرکت کے حوالے سے جیسے انقلاب آ گیا۔
خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ
فرانسیسی وزیر مسلم خواتین فٹ بالروں کے حجاب پہننے کے حق میں
اس انقلابی عمل کی ایک مثال یہ ہے کہ ٹھیک پانچ عشرے قبل منظور کیے جانے والے اس قانون کے بعد سے اب تک ہائی اسکول کی سطح پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شرکت 1000 فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ ویمن سپورٹس فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے مطابق گزشتہ نصف صدی کے دوران کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح کے سپورٹس پروگراموں میں لڑکیوں اور خواتین کی شرکت میں بھی 500 فیصد سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔
سپورٹس کے لیے انتہائی دور رس نتائج
اسی تاریخی قانون سازی کے نتیجے میں کھیلوں کے اولمپک مقابلوں میں خواتین کی شرکت کے تناسب میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ امریکہ کی اولمپک اور پیرالمپک کمیٹی کی چیف ایگزیکٹیو سارہ ہِرش لینڈ کہتی ہیں، ”پچاس برس قبل اس قانون کی منظوری کے امریکہ میں مختلف کھیلوں کی قومی ٹیموں پر انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوئے۔‘‘
کشمیری لڑکیوں کا کھیلوں میں کیرئیر اور درپیش مشکلات
‘ٹائٹل نائن‘ نامی قانون کے بعد سے امریکی گرمائی اولمپک مقابلوں کے لیے ٹیموں میں خواتین کی شرکت 310 فیصد زیادہ اور سرمائی اولمپک مقابلوں میں شرکت 300 فیصد زیادہ ہو چکی ہے۔