
ایمنسٹی انٹرنیشنل برائے جنوبی ایشیا کے مطابق اگر اس سزا کی تصدیق ہوگئی تو یہ 2 سال سے جاری ناانصافی کے عمل کی شرم ناک انتہا ہوگی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ادریس خٹک کے خلاف مقدمے کے حوالے سے بہت ہی محدود معلومات جاری کی گئی ہیں۔ ادریس خٹک کے وکیل کے مطابق مقدمے کی کارروائی میں ’سنگین خامیاں‘ موجود تھیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ادریس خٹک کے گھر والوں کو مقدمے کی تفصیلات سے آگاہ کریں، ادریس خٹک کو وکیل تک رسائی فراہم کریں اور انہیں سول عدالت کے سامنے پیش کریں تاکہ ان کی گرفتاری اور حراست کے قانونی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکے۔واضح رہے کہ 4 دسمبر بروز ہفتہ سماجی کارکن ادریس خٹک سے متعلق اطلاعات منظر عام پر آئی تھیں کہ فوجی عدالت کی جانب سے سماجی کارکن ادریس خٹک کو جاسوسی کے الزام میں 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ادریس خٹک کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سے جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے کا الزام ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی۔ یہ فیصلہ رواں ہفتے جہلم میں مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر سنایا گیا۔ سزا پر عمل درآمد کے لیے ادریس خٹک کو جہلم ڈسٹرکٹ جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ادریس خٹک پر پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923ء کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ ان پر غیرملکی جاسوسی اداروں کو حساس معلومات فراہم کرنے کا الزام تھا۔ کورٹ مارشل کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جاسوسی کا ملزم چاہے عسکری ادارے سے ہو یا پھر کوئی سویلین، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اس کے مقدے کی سماعت کرسکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ادریس خٹک ایپلیٹ ٹریبونل کے سامنے اپیل کرسکتے ہیں، جب کہ اس کے بعد ان کے پاس آرمی چیف سے بھی اپیل کرنے کا حق ہوگا۔وکیل کا بیانایمنسٹی نے ادریس خٹک کے وکیل کے حوالے سے بتایا کہ انہیں اس تمام عرصے کے دوران صرف 3 بار ملاقات کی اجازت دی گئی۔ اس دوران ملاقات کی کیمروں کے ذریعے ریکارڈنگ بھی کی گئی، جب کہ ہر مرتبہ ملاقات میں آرمی کے افسر موجود رہتے تھے۔انہیں پشتو میں بھی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔پس منظرادریس خٹک ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ سابق قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے تحقیقات کرچکے ہیں۔ نامعلوم افراد کی جانب سے انہیں 13 نومبر 2019 کو اسلام آباد سے پشاور جاتے ہوئے صوابی انٹرچینج کے قریب گرفتار کیا تھا۔ان کے خاندان کی جانب سے 6 ماہ طویل عوامی مہم اور پشاور ہائی کورٹ میں ان کی برآمدگی کی درخواست دائر کرنے کے بعد 16 جون 2020 کو وزارت دفاع نے یہ تسلیم کیا کہ وہ فوج کی حراست میں ہیں اور ان پر آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ کیا گیا ہے۔
بعد ازاں ادریس خٹک کے بھائی نے پشاور ہائی کورٹ میں فوجی عدالت کی جانب سے ان کے مقدمے کی سماعت روکنے کی درخواست دائر کی تاہم 28 جنوری 2021 کو ہائی کورٹ نے یہ اپیل مسترد کردی۔فوجی افسران کو سزائیںعلاوہ ازیں سوشل میڈیا پر متعدد سینیر صحافیوں کی جانب سے کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران اور عام شہری کو بھی فوجی عدالت سے سزاؤں کی ٹوئٹس سامنے آئیں، تاہم سرکاری سطح پر کوئی بیان سامنے نہیں آسکا۔منظر عام پر آنے والے اطلاعات کے مطابق راول پنڈی میں بھی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 3 ریٹائرڈ فوجی افسران کو جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے کے الزام میں قید بامشقت کی سزائیں سنائیں۔مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر کی گئی ٹوئٹس میں لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ فیض رسول کو 14 سال قید بامشقت، لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ اکمل کو 10 سال قید بامشقت اور میجر ریٹائرڈ سیف الدین کو 12 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان جرائم کے ارتکاب کے وقت یہ تینوں افراد ریٹائر ہوچکے تھے۔