
عدالت نے متعلقہ حکام کے سامنے سوالات رکھے ہیں کہ وہ ان کے جواب پر مشتمل رپورٹ ایک ہفتے میں لارجر بینچ کے جائزے کے لیے دیں۔ سوالات کچھ یوں ہیں:
کیا حکومت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی گئی؟
عمران خان نے کتنے بجے پارٹی کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے کہا؟
کیا ریڈ زون میں گھس جانے والا ہجوم منظم تھا؟
کیا پولیس نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کی؟ فیصلے میں عدالت نے سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ کتنے مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟
کیا مظاہرین نے سکیورٹی بیریئرز کو توڑا؟ کتنے عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے اور ہسپتال پہنچے یا گرفتار کیے گئے؟عدالتی فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت درخواست دائر کی جس میں شکایت تھی کہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے قبل وفاقی حکومت نے راستے بند کردیے ہیں۔یاد رہے کہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے راستوں کی بندش کے باعث شہریوں کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں جن کی آئین کے آرٹیکل 9 اور 15 ضمانت دیتے ہیں۔
عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران جماعت کی قیادت نے یقین دہانی کرائی کہ احتجاجی ریلی پرامن ہوگی جس پر عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے انتظامیہ کو جگہ کے تعین اور سکیورٹی کے انتظامات کی ہدایت کی۔
فیصلے کے مطابق عدالت نے تمام سیاسی فریقین اور احتجاج کرنے والے کارکنوں سے پرامن رہنے کے لیے بھی کہا۔
عدالتی حکم نامہ 25 مئی کی شام چھ بجے جاری کیا گیا جس کے بعد رات ساڑھے دس بجے حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے ایک متفرق درخواست دائر کی۔
درخواست میں یہ الزام لگایا گیا کہ تحریک انصاف کی قیادت خاص طور پر عمران خان کی جانب سے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کارکنوں کو ریڈ زون کے حساس علاقے ڈی چوک پہنچنے کے لیے کہا گیا۔