
بلاول بھٹو اور شہباز شریف وکلا اور میڈیا کے لوگوں سے نشستوں سے اٹھ کر مل رہے تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکومت کی طرف سے شہباز گل، فواد چوہدری قدرے تاخیر سے عدالت پہنچے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے راجہ پرویز اشرف، رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب، شیری رحمن اور قمرالزمان کائرہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت سے قبل چیف جسٹس نے کہا کہ کمرہ عدالت میں بہت رش ہے میں نے ماسک پہن رکھا ہے مگر احتیاطی تدابیر کے باعث کچھ لوگوں کو کمرہ عدالت سے باہر جانا چاہیے۔ ممکن ہے تو گیلری میں لوگوں کو بھیجوا دیں۔باقاعدہ سماعت شروع ہوئی تو پاکستان بار کے وکیل منصور عثمان نے ’سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد تاخیر سے بلائے جانے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔‘تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا کہ یہ تکنیکی معاملات ہیں جنہیں متعلقہ فورم یعنی اسمبلی میں ہی اٹھایا جائے۔اس موقع پر جب پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپیکر کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت بغاوت کی کارروائی کی جائے تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے از راہ تففن کہا کہ جن پر پہلے آرٹیکل چھ لگا ہے اس پر تو عمل درآمد کروا لیں۔ شاید ان کا اشارہ سابق فوجی صدر جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت ہونے والی کارروائی کی طرف تھا۔سماعت کے دوران بلاول بھٹو ایک بار اٹھ کر فاروق ایچ نائیک کے پاس گئے اور ان کے کان میں کچھ کہا۔ شہباز شریف ظہر کی نماز کے لیے اٹھ کر باہر بھی گئے مگر بلاول اور مولانا فضل الرحمن پورا وقت اپنی نشستوں سے ہی کارروائی دیکھتے رہے۔
مولانا فضل الرحمن مسکراتے ہوئے اپنی نشست سے ہی سب کو سلام کرتے رہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تمام سیاسی قیادت کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے تحریری فیصلے میں تو نہیں لکھیں گے مگر سیاسی قیادت کو جارحانہ بیان بازی نہیں کرنی چاہیے اس سلسلے میں ماضی کی سیاسی قیادت کا کردار مشعل راہ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی طاقت کا مظاہرہ صرف پارلیمنٹ میں کریں۔ سندھ ہاؤس پر جو کچھ ہوا اس سے ارکان کا ووٹ کا حق متاثر ہوا۔‘چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کے شاہراہ دستور پر جلسوں کے اعلان کے حوالے سے کہا کہ ’کوشش کریں کہ ڈی چوک میں جلسہ نہ ہو، جلسوں میں تہذیب کے اندر رہتے ہوئے تقاریر کی جائیں۔‘ ’ڈی چوک پر ماضی میں جو ہوا اس سے نا صرف معاشی بلکہ سفارتی سطح پر سنگین نتائج نکلے۔‘سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وہ پارلیمنٹ کی اندرونی کاروائی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی بلکہ ایک ثالث کے طور پر چاہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین اور قانون کے مطابق جمہوری عمل آگے بڑھائیں۔چیف جسٹس نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ جمہوریت کا مرکزی ادارہ ہے جو آئین کے تحت کام کرتا ہے جبکہ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے۔تحریک عدم اعتماد پر بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ حکومتی جماعت ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں۔انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے میں تاخیر ضرور ہوئی مگر اس کے بعد کا عمل جلدی میں آئین کے مطابق پورا کیا جائے گا۔
شہباز شریف ظہر کی نماز کے لیے اٹھ کر باہر بھی گئے مگر بلاول اور مولانا فضل الرحمن پورا وقت اپنی نشستوں سے ہی کارروائی دیکھتے رہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اٹارنی جنرل نے ہجوم کے ذریعے منحرف ارکان کو روکنے کے حوالے سے حکومتی وزرا فواد چوہدری اور شہباز گل کے نام لیے بغیر ان کے بیانات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے عدالت کو یقین دلایا کہ ان کی وزیراعظم عمران خان سے بات ہوئی ہے ایسا نہیں ہوگا اور ہر ممبر کو آزادی سے ووٹ کا حق دیا جائے گا۔ نا ہجوم اور ناں ہی حکومت اس میں کوئی رکاوٹ ڈالے گی۔
چیف جسٹس نے بھی واضح کیا کہ عدالت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔سماعت تقریبا دو گھنٹے جاری رہنے کے بعد ختم ہوئی تو کمرہ عدالت سے باہر جاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ نے برجستہ کہا کہ چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔تاہم کمرہ عدالت کے باہر اپوزیشن اراکین مطمئن نظر آئے۔ حکومتی ارکان نے بھی چلتے چلتے میڈیا سے بات کی۔وزیراطلاعات فواد چوہدری سے پوچھا گیا کہ آپ کے بیان سے تو اٹارنی جنرل نے لاتعلقی کر دی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بیان ایسے ہی ہوتے ہیں تاہم انہیں سنجیدہ سمجھا جانا چاہیے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب بھی وہ منحرف ارکان کو روکنے کے بیان پر قائم ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہم مڈل کلاس کی جماعت ہیں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہی کریں گے۔دوسری طرف بلاول بھٹو نے سماعت کے بعد عدالت کا شکریہ ادا کیا۔یاد رہے کہ عدالت حکومت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت 24 مارچ سے کرے گی تاہم چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اس کارروائی سے عدم اعتماد کے عمل میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور اسے جاری رکھا جائے۔