
حمزہ شہباز نے نمبر تو پورے کر لیے ہیں، لیکن ان کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا (فوٹو سکرین گریب)
پینل آف چئیر پرسن بنیادی طور پر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی غیرموجودگی میں اسمبلی کی کارروائی چلا سکتا ہو۔ ہر اسمبلی سیشن میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پانچ پینل آف چئیر پرسن دیے جاتے ہیں۔
بظاہر اسمبلی اجلاس کے تمام تقاضے پورے کیے جا رہے تھے۔ اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد پہنچ چکی تھی۔ سب سے آگے والی نشستوں پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے چہرے نمایاں تھے۔حمزہ شہباز اور مریم نواز کی ہال میں انٹری کے بعد علیم خان کو حمزہ شہباز کے برابر نشست دی گئی۔ اجلاس کی کارروائی چلانے کے لیے سابق ڈپٹی سپیکر رانا مشہود پینل آف چئیر پرسن کو گائیڈ کرتے رہے۔ تلاوت کے بعد اجلاس چئیر پرسن نے گنتی کے احکامات دیے تو ان کو بتایا گیا کہ حمزہ شہباز کی حمایت میں 199 اراکین موجود ہیں۔ جب کہ ان کے مدمقابل امیدوار پرویز الہی کا ایک بھی امیدوار نہیں تھا۔ ہال میں تالیاں گونج اٹھیں اور علامتی طور پر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بن گئے۔ باہر سینکڑوں پولیس اہلکار ہوٹل کے چاروں اطراف مسلح کھڑے تھے، لیکن علامتی وزیر اعلیٰ بغیر اختیار اور بغیر سرکاری پروٹوکول وہاں سے روانہ ہو گئے۔ اپوزیشن کے اس عمل کے بعد پنجاب میں آئینی اور سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس بحران کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہیں جن کے پاس استعفیٰ دینے کے بعد نئے وزیر اعلیٰ کا چارج تو ہے، لیکن وہ کوئی ایگزیکٹو آرڈر جاری نہیں کر سکتے۔دوسرے حمزہ شہباز ہیں جنہوں نے صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ بننے کے لیے نمبر تو پورے کر لیے ہیں، لیکن ان کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔
پنجاب اسمبلی کے گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی (فوٹو سکرین گریب)
ایک طرف سپیکر صوبائی اسمبلی اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ خود وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
دوسری طرف دوست مزاری ہیں جن کے خلاف نہ صرف عدم اعتماد کی تحریک داخل کی جا چکی ہے، بلکہ سپیکر نے ان کے اختیارات بھی ختم کر دیے ہیں۔ اب وہ خود بھی اسمبلی کی عمارت میں داخل نہیں ہو سکتے۔