
آڈٹ کا کہنا ہے کہ مالی بے ضابطگی ملک میں توانائی کے بحران کا پیش خیمہ بنی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث 322 ارب روپے کے فنڈز استعمال نہ کرنے سے ملک میں گیس کے انفراسٹرکچر کو بہتر نہیں بنایا جا سکا جس سے نہ صرف مالی بے ضابطگی ہوئی بلکہ ملک میں توانائی کے بحران کا پیش خیمہ بھی بنی ہے۔
دوسری جانب وزارت توانائی کا موقف ہے کہ ان منصوبوں کے لیے ملک کے اندر وزارت دفاع اور وزارت خارجہ سے رابطے کرکے ضروری سفارتی رابطوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے جبکہ زمین کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔آڈٹ حکام نے وزارت توانائی کے حکام کے جواب کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ایک اور آڈٹ اعتراض میں آڈیٹر جنرل نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق ہر کمپنی کو اپنے فروخت کیے گئے گیس کے ساتھ صارف کمپنیوں سے گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرانا ہوتا ہے۔
وزارت توانائی نے گزشتہ سال سے 30 فیصد سے زائد وصولیاں کرنے کے باوجود اپنے طے شدہ ہدف سے 16 فیصد کم کی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
آڈٹ کے دوران معلوم ہوا کہ ان کمپنیوں نے گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج وصول تو کر لیا لیکن قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا جس سے 43 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
ایک اور کیس میں سرچارج کی اصل رقم دو ارب 12 کروڑ روپے ہے لیکن عدم وصولی کے باعث اس پر سود کی رقم 11 ارب سے تجاوز کر چکی ہے لیکن وصولی ممکن نہیں بنائی جا سکی۔آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق اگر کوئی کمپنی پاکستان کی زمین سے تیل نکالتی ہے تو وہ متعلقہ صوبے کو رائلٹی دینے کی پابند ہے۔ اگر 45 روز میں رائلٹی ادا نہ کی جائے تو اس پر دو فیصد جرمانہ ماہانہ بنیادوں پر عائد ہوتا ہے۔آڈٹ کے مطابق مالی سال 2020-21 میں وزارت توانائی نے 9 کمپنیوں سے آئل اور گیس کی 40 فیلڈز کی رائلٹی وصول نہیں کی جس کی رقم 10 ارب 72 کروڑ روپے بنتی ہے۔