
گروپ کیسے کارروائی کرتارپورٹ میں تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل بھی کیے یا نہیں اور ان کی تعداد کتنی تھی؟۔ بعد ازاں اگست میں مذکورہ ویب سائٹ “سائیڈ کاپی” کو ہٹا دیا گیا۔ یہ گروپ اپنی کارروائی کے دوران اہداف کو جھانسہ دے کر مشکوک لنکس پر کلک کرنے یا جعلی چیٹ ایپس کو ڈاؤن لوڈ کروانے کیلئے “ہنی ٹریپ یا یوں کہیں دل لبھانے والی نوجوان خواتین کی فرضی پروفائلز بناتا اور ان کے ذریعے لوگوں کی حساس معلومات، ان کی فیس بک پروفائل تک رسائی اور پاس ورڈز حاصل کرتا۔مذکورہ ہیکرز کی کمپنی مطلوبہ معلومات ملنے پر اہداف کی پروفائلز میں اپنی مرضی سے تبدیلی کرتی اور ان کی چیٹنگ کو بھی مانیٹر کرتی۔فیس بک کے سائبر جاسوسی کی تحقیقات کے ادارے کے سربراہ نے بتایا کہ متعلقہ خطرات سے متعلق کچھ بھی کہنا محض قیاس آرائی ہوگی، ہم نہیں جانتے کہ کس پر حملہ ہوا یا اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلا۔ تاہم سائبر حملوں کے واضح ثبوت موجود ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہیکنگ مہم میں اپریل سے اگست کے عرصے میں تیزی آئی لیکن کمپنی نے افغانستان میں اپنے ملازمین کے حفاظتی خطرات اور نیٹ ورک کی مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت کی وجہ سے پہلے اسے بے نقاب نہیں کیا۔ اس سلسلے میں فیس بک کی جانب سے امریکی محکہ خارجہ کے ساتھ بھی معلومات شیئر کی گئی تھیں۔فیس بک کا کہنا ہے کہ افغانستان کے کیسز ظاہر کرتے ہیں کہ سائبر جاسوسی گروپوں نے تنازعات کے دوران غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھایا جب لوگ ہیرا پھیری کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں اور ایسے جھانسوں میں باآسانی پھنس سکتے ہیں۔