
کامران عادل کے مطابق پولیس پتنگ بازوں کو پکڑنے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز کامران عادل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پتنگ ساز اب سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں آتے ہیں۔ چاہے وہ واٹس ایپ ہو، یا فیس بک یا انسٹا گرام وہ مختلف گروپس میں اپنے نئے سٹاک کی تصاویر شئیر کرتے ہیں۔ جنہیں لوگ خریدتے ہیں۔‘
پولیس خفیہ پتنگ فروشوں کا نیٹ ورک کیسے توڑتی ہے؟کامران عادل کے مطابق پولیس کو پتنگ فروشوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے نیٹ ورکس توڑنے کے لیے انہی کے طریقے اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔’ہمارے کئی افسران نے شناخت تبدیل کر کے ایسے افراد کو سوشل میڈیا سے ٹریپ کیا اور پتنگ خریدنے کے بہانے ان کو گرفتار کرلیا۔‘ کامران عادل کا کہنا ہے کہ پولیس پتنگ بازوں کو پکڑنے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہی ہے۔ اسی طرح طاقتور دوربینوں کی مدد سے بھی ان لوگوں کو ٹریس کیا جاتا ہے جو چھپ کر اپنے گھروں کی چھتوں پر پتنگ بازی کر رہے ہوتے ہیں۔ فیصل آباد میں پتنگ سازوں کی نظربندی فیصل آباد پولیس نے پتنگ سازوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک مختلف اور غیر روایتی طریقہ اپنایا ہے۔
پتنگ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کو ایک ایک مہینے کے لیے ان کے گھروں پر نظر بند کیا گیا (فوٹو اے ایف پی)
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈی آئی جی کامران عادل کا کہنا تھا کہ ’فیصل آباد کے سینٹرل پولیس آفیسر مبشرمیکن نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے بار بار پتنگ سازی یا پتنگ بازی کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے 16 ایم پی او کے قانون کے ذریعے نقص امن کے خدشے کے تحت نظر بند کر دیا۔‘
یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پتنگ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کو ایک ایک مہینے کے لیے ان کے گھروں پر نظر بند کیا گیا ہے۔ نظر بند ہونے والے افراد پر پتنگ بازی کے درجنوں مقدمات پہلے ہی موجود ہیں۔پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال صوبہ بھر میں پتنگ فروشوں اور پتنگ بازوں کے خلاف جاری آپریشن میں اب تک 3146 مقدمات درج کیے گئے ہیں، جبکہ 3343افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار افراد کے قبضے سے چار لاکھ کے قریب پتنگیں اور آٹھ ہزار سے زائد ڈوریں برآمد کی گئیں۔