
درخواست میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ موصول ہوئی جس کی تحقیقات ہونی چاہییں (فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی آئی کو امریکہ، متحدہ عرب امارات ، برطانیہ ، یورپ ، آسٹریلیا ، کینڈا سے فنڈز موصول ہوئے ۔ الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد دلائل مکمل ہونے پر 21 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟الیکشن ایکٹ کے مطابق اگر کسی سیاسی جماعت کو غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ موصول ہو رہی ہے تو اس کے عطیات ضبط ہو جائیں گے۔ جماعت وفاقی حکومت کے ڈکلیریشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحلیل ہو جائے گی اس کے علاوہ پارٹی پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومت سے باقی مدت کے لیے نااہل ہو جائے گی۔سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے متعلق الیکشن ایکٹ کا سیکشن 200 کہتا ہے کہ سیاسی جماعت غیر ملکی امداد سے نہ تشکیل پائے گی، نہ منظم ہو گی، نہ قائم ہو گی۔سیکشن 2004 کے مطابق سیاسی جماعت کو براہ راست یا بلاواسطہ کسی غیر ملکی ذرائع بشمول غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشل کمپنی، فرم ، تجارتی یا پیشہ ور ایسوسی ایشن یا افراد سے عطیہ ممنوعہ ہو گا۔ممنوعہ ذرائع سے ملنے والے عطیہ حکومت ضبط کر لے گی۔ عطیہ کیش، سٹاک، ٹرانسپورٹ، فیول یا دیگر سہولیات کی مد میں ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی ذرائع میں سمندر پار پاکستانی شامل نہیں جو نادرا کا جاری کردہ سمندر پار پاکستانیوں کا شناختی کارڈ رکھتے ہوں۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ کی رقم ظاہر نہیں کی (فوٹو: اے ایف پی)
سیکشن 212 کے مطابق اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس یا کسی اور ذرائع سے حاصل معلومات کے تحت وفاقی حکومت مطمئن ہو کہ سیاسی جماعت کو غیرملکی فنڈنگ حاصل ہے تو وہ نوٹی فیکشن کے ذریعے اس کا ڈکلیریشن کرے گی۔
اس ڈکلیریشن کے بعد حکومت معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی۔ اگر سپریم کورٹ سیاسی جماعت کے خلاف وفاقی حکومت کے ڈکلیریشن کو برقرار رکھے گی تو وہ سیاسی جماعت تحلیل کر دی جائے گی۔سیکشن 213 کے تحت تحلیل ہونے والی سیاسی جماعت اگر پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی یا مقامی حکومت کا حصہ ہوئی تو وہ باقی مدت کے لیے نااہل ہو جائے گی۔الیکشن ایکٹ کا آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ’وفاقی حکومت جہاں قرار دیتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت یا امن عامہ کے برخلاف انداز میں تشکیل دی گئی ہے یا چل رہی ہے تو وفاقی حکومت ایسے ڈکلیریشن کے 15 دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ بھیجی گی اور عدالت عظمٰی کا ایسے ریفرنس پر فیصلہ حتمی ہوگا۔‘