
حقانی چوک کبھی گاندھی چوک ہوا کرتا تھا۔ فوٹو: اردو نیوز
کراچی کی تاریخ پر کئی کتابیں لکھنے والے اختر بلوچ بتاتے ہیں کہ یہ مجسمے، جو شہر کی خوبصورتی میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے، مختلف وجوہات کی بنا پر اکھاڑ کر مختلف عمارتوں کے گوداموں میں رکھ دیے گئے ہیں۔
’ملکہ برطانیہ کا یادگاری مجسمہ جو کبھی فریئر ہال پر نصب تھا اب ایک ٹوٹے ہاتھ اور ناک کے ساتھ موہٹا پیلس کے زیر تعمیر حصے میں رکھا ہوا ہے، ایڈلجی ڈنشا اور ان کے بیٹے نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ آج کی مشہور سڑک شاہراہ فیصل میٹرپول پر ہوا کرتا تھا۔ وہ سڑک تقسیم ہند سے قبل وکٹوریہ روڈ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اب اس سڑک کا نام عبداللہ ہارون روڈ ہے۔ نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ جہاں تھا، اس مقام پر ایک مینار بنایا گیا ہے جس پر ایک گھڑیال نصب ہے۔ جبکہ ان کے مجسمے اب پارسی کلب کراچی میں نصب ہیں جو کچھ بہتر حالت میں ہیں۔‘اختر بلوچ بتاتے ہیں کہ ’گاندھی چوک پر لگے گاندھی جی کے مجسمے کا کسی کو علم نہیں، اس کے علاوہ ہرچند رائے وشن داس کے مجسمے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ٹوٹی گردن کے ساتھ ان کا مجسمہ موہٹا پیلس میں موجود ہے۔‘اختر بلوچ کی نشاندہی پر اردو نیوز نے موہٹا پیلس بورڈ سے رابطہ کیا اور کراچی کے اس تاریخی ورثے کی حالت جاننے کی کوشش کی۔ تاہم بورڈ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
کئی مجسمے مختلف اکھاڑ کر مختلف عمارتوں کے گوداموں میں رکھ دیے گئے۔ فوٹو: اردو نیوز
موہٹا پیلس کی ذمہ دار فریحہ ننجیانی نے اردو نیوز کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملکہ وکٹوریہ سمیت دیگر نامور شخصیات کے مجسمے موہٹا پیلس میں موجود ہیں لیکن وہ دکھائے نہیں جاسکتے۔ ان مجسموں کو احتیاط سے رکھا گیا ہے۔
فہیم الزماں کا کہنا ہے کہ سال 1958 سے 1961 کے درمیان شہر میں مذہبی ہنگامے ہوئے اور شہر میں نصب مجسموں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میونسپل انتظامیہ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے ان خراب حال مجسموں کو کے ایم سی کی لارنس روڈ پر واقع ایک ورکشاپ میں چھپا دیا تھا۔’میں نے اپنے دور میں ان مجسموں کو نکلوا کر موہٹا پیلس میں رکھا۔ سٹی حکومت کی مانگ پر کچھ مجسمے واپس کیے گئے ہیں۔ مجسمے اصل حالت میں نہیں تھے ان میں ٹوٹ پھوٹ ہو گئی تھی۔ اسی حالت میں یہ وہاں رکھے گئے ہیں۔‘اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ کراچی کے تاریخی مقامات کی اگر دیکھ بھال کی جاتی اور ان مجسموں کو محفوظ کیا جاتا تو آج دنیا بھر میں یہ پاکستان کے مثبت چہرے کے طور پر پیش کیے جا سکتے تھے۔