
مہمانوں کی گیلری میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، شیری رحمٰن سمیت اپوزیشن کے سینیٹرز بیٹھے تھے۔ فائل فوٹو: سکرین گریب
اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس کمیٹی روم نمبر دو میں ہوا جہاں عام طور پر حکومتی اتحادیوں کا اجلاس ہوتا ہے مگر جمعے کو وہاں شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے مولانا اسعد محمود اور سردار اختر مینگل اپنی جماعتوں کے ایم این ایز کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔
اپوزیشن کا اجلاس ختم ہوا تو دروازے پر کھڑے صحافیوں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی مگر زیادہ تر ارکان نے بات کرنے سے گریز کیا۔ یہ بات سب نے نوٹ کی کہ خلاف توقع اپوزیشن ارکان اتنے ہشاش بشاش نظر نہیں آ رہے تھے جتنے ایک جیتی ہوئی ٹیم کے کھلاڑی لگتے ہیں۔ صرف سابق سپیکر ایاز صادق نے مختصر گفتگو کی اور بتایا کہ ’اپوزیشن چاہتی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی آج ہی تحریک عدم اعتماد پر کاروائی شروع کر دیں۔‘اجلاس شروع ہوا تو پریس گیلری میں موجود ہر صحافی کی نظریں پی ٹی آئی کے ان منحرف اراکین کو ڈھونڈ رہی تھیں جنہوں نے چند دن قبل سندھ ہاؤس میں کھل کر وزیراعظم عمران خان پر تنقید کی تھی اور ان کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی وہاں نظر نہیں آیا۔ اپوزیشن کے 159 ارکان اور جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی اپوزیشن بینچوں پر موجود تھے جبکہ حکومتی بینچوں پر چند وزرا سمیت سو سے بھی کم ارکان نظر آئے۔مہمانوں کی گیلری میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، شیری رحمٰن سمیت اپوزیشن کے سینیٹرز بھی خصوصی طور پر آئے ہوئے تھے۔ اجلاس میں قومی ترانے کے بعد عام طور پر ارکان پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں مگر آج پی ٹی آئی کی زرتاج گل نے عمران خان زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا جس کا جواب چند پی ٹی آئی ارکان نے دیا۔ پریس گیلری میں موجود ایک سینئیر صحافی عاصم یاسین کا کہنا تھا کہ عام طور پر کسی رکن کی وفات پر اسمبلی میں تعزیتی قرارداد بھی پیش کی جاتی ہے اور ارکان اظہار خیال بھی کرتے ہیں مگر آج شاید سپیکر کارروائی جلد از جلد ختم کرنا چاہتے تھے اس لیے باقی روایات کو بھول گئے۔ اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپیکر نے آج تو اجلاس معطل کر دیا ہے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔‘