
معید یوسف نے کہا ہے کہ یہ پالیسی قومی سلامتی کے تمام پہلوؤں کو دیکھتی ہے (فائل فوٹو: پاکستان نیوی)
اس سوال پر کہ حکومتی یا ریاستی تبدیلیوں کے بعد یہ پالیسی سرد خانے میں تو نہیں چلی جائے گی؟ سابق مشیر قومی سلامتی نے جواب دیا کہ ’یہاں کا آپ کو بھی پتا ہے لیکن ایک کام ہوتے ہوتے ہو گیا ہے تو سب کو مبارک باد۔‘
کیا یہ پالیسی بلوچستان اور سابق فاٹا کے علاقوں کے عوام کی شکایات کا ازالہ کرسکے گی؟ اس پر سابق مشیر قوی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے کہا کہ ’اس پالیسی کے اطلاق سے ان تمام علاقوں میں سوشل ڈویلپمنٹ ہوگی، سکیورٹی بہتر ہوگی، صحت کا نظام بہتر ہوگا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے بھی نمٹنے میں مدد ملے گی۔‘’معاشی سلامتی‘ کو اس قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی جزو قرار دیا جا رہا ہے تاہم اس کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالے سے اردو نیوز نے ڈان اخبار سے وابستہ سینیئر صحافی خلیق کیانی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’مجھے حیرانی ہے کہ آج 74 برسوں بعد ہمیں پتا چلا ہے کہ معیشت کتنی ضروری ہے، لیکن اگر آج بھی یاد آیا تو یہ خوش آئند ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’شاید حال ہی میں دفاعی بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد ہمیں معیشت کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے۔‘معاشی تجزیہ کار خرم حسین کے مطابق ابھی اس نئی پالیسی کے حوالے سے کچھ پتا نہیں ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ ’ملک کی معاشی، خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کو جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے، پر دیکھنا یہ ہوگا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر جگہ کس کو ملتی ہے۔‘
رضوان الرحمان رضی کے مطابق ’پاکستان کا بارڈر سکیورٹی کا نظام بھی اچھا نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے سینیئر صحافی رضوان الرحمان رضی سمجھتے ہیں کہ معاشی ترقی کے لیے ملکی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک امن بھی ضروری ہے۔
’ملک میں جو بھی آپریشن ہوتے ہیں ان کا ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ سابق فاٹا میں ہونے والے آپریشنز سے وہاں کی مقامی صنعتیں ختم ہو گئیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس نئی پالیسی کے حوالے سے ابھی کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن ’پوری دنیا میں معیشت سلامتی کا اور سلامتی معیشت کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔‘رضوان الرحمان رضی کے مطابق ’پاکستان کا بارڈر سکیورٹی کا نظام بھی اچھا نہیں ہے۔ ہمیں ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک سے جو سکینرز ملے ہوئے ہیں وہ ہم نے استعمال نہیں کیے۔‘’ان سکینرز سے جو ٹرالر بھی گزرتا ہے اس کا سامان سمیت پورا ریکارڈ محفوظ ہوجاتا ہے لیکن ہمارے کچھ ریاستی اداروں کے مفادات کی وجہ سے یہ نصب نہیں ہو سکے۔‘