
پاکستان کی تاریخ میں اب تک 3 وزرائے اعظم کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جا چکیں جبکہ 2 اسپیکرز پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا جاچکا ہے۔پاکستان کے 1973ء میں نافذ آئین میں وزیراعظم اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی شق شامل کی گئی اس شق کو پہلی مرتبہ ایک جنرل ضیاء الحق کے دور 1985ء میں استعمال کیا گیا اور قومی اسمبلی کے اسپیکر فخر امام تحریک عدم اعتماد کا پہلا نشانہ بنے، ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور فخر امام کو عہدے سے ہٹادیا گیا، ان کی جگہ حامد ناصر چٹھہ اسپیکر بنے۔وزرائے اعظم کیخلاف قومی اسمبلی میں پیش تحاریک عدم اعتماد سے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں تحاریک 16، 16 سال کے وقفے سے پیش ہوئیں۔جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد 1988ء میں ہونیوالے عام انتخابات کے تقریباً ایک سال بعد ہی متحدہ اپوزیشن نے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی طرح اس وقت بھی اپوزیشن کے 86 ارکان اسمبلی نے تحریک پر دستخط کئے تاہم ووٹنگ کے دوران حزب اختلاف کو 124 کے مقابلے میں 107 ووٹ ملے اور تحریک مسترد کردی گئی۔سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد لگ بھگ 16 برس تک دوبارہ کسی وزیراعظم کیخلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں آئی۔لگ بھگ 16 برس کے بعد ایک بار پھر ایک دوسرے فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں اگست 2006ء میں اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، تاہم یہ قرار داد بھی کامیاب نہ ہو سکی اور شوکت عزیز کا اقتدار بچ گیا۔
اب ایک بار پھر سے تقریباً 16 برس کے عرصے کے بعد متحدہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے کر آئی ہے، جس کا نشانہ وزیراعظم عمران خان ہیں۔اس طرح تقریباً 16، 16 برس کے وقفے کے بعد ملک کے 3 وزرائے اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئیں ہیں۔اس سے قبل جون 2003ء میں قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین کے جنرل پرویز مشرف کے ایل ایف او کو آئین کا حصہ قرار دینے پر اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی، تاہم اس تحریک عدم اعتماد کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کی تاریخ میں موجودہ اسمبلی چوتھی ہوگی جو اپنی 5سالہ میعاد پوری کرے گی، اس سے قبل تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی، جن میں پرویز مشرف دور کی 2002ء کی اسمبلی، پیپلز پارٹی کی 2008ء اور مسلم لیگ ن دور کی 2013ء کی اسمبلیاں شامل ہیں۔تاہم آج تک پاکستان میں کوئی منتخب وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا، 1988ء میں بے نظیر بھٹو سے لے کر 2013ء تک نواز شریف کوئی بھی اپنے عہدے کی میعاد مکمل نہیں کرسکا، پرویز مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے تاہم انہیں نااہل قرار دیدیا جس کے بعد راجا پرویز اشرف وزیراعظم بنے، 2013ء میں نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے مگر انہیں بھی پاناما کیس میں نااہل قرار دیدیا گیا اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی باقی مدت کیلئے وزیراعظم بنے۔وزیراعظم عمران خان کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد ان کی حکومت کی معیاد مکمل ہونے سے ڈیڑھ برس قبل لائی گئی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلی بار کوئی وزیراعظم اپنے عہدے کی میعاد مکمل کر پاتا ہے یا نہیں۔ عمران خان ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جو قومی اسمبلی سے دو مرتبہ اعتماد کا ووٹ لے چکے ہیں۔