
گزشتہ مہینے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے چوہدری برادران سے ملاقات کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
لیکن خود بھی وزیراعظم چوہدریوں سے ملاقات کرنے یکم مارچ کو ان کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی تھے۔ اس ملاقات کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ہی اپنی اگلی سیاسی چالوں میں گجرات کے چوہدریوں کا کردار دیکھ رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ق لیگ کے پاس مرکز میں صرف پانچ جبکہ پنجاب میں دس سیٹیں ہیں۔ انہی نشستوں کے بل پر وفاق میں مونس الہی وزیر ہیں تو پنجاب میں پرویز الہی سپیکر اسمبلی ہیں۔ چوہدریوں کی مہمان نوازیوں کے چرچے کم نشستیں ہونے کے باوجود ملکی سیاست میں اپنے آپ کو محور رکھنا گجرات کے چوہدریوں کی اصل سیاست ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقاتوں کو چوہدری پرویز الہی اپنی ’روایتی مہمان نوازی‘ قرار دیتے ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ہمارے گھر میں جو بھی آتا ہے ہم اس کا بھرپور خیرمقدم کرتے ہیں اور یہ ہمارے بزرگوں کی روایت ہے۔‘
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق چوہدری برادران کی سیاست نناوے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ (فائل فوٹو)
تو کیا واقعی یہ ملاقاتیں محض مہمان نوازی کے اشارے ہیں؟ مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے تاہم اردو نیوز کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’مہمان نوازی تو اپنی جگہ لیکن یہ ملاقاتیں خالصتا سیاسی نوعیت کی رہی ہیں۔ اور چوہدریوں نے کھل کر پنجاب کی وزارت اعلی مانگی ہے۔ کہ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو پنجاب میں بزدار حکومت کو بھی ہٹایا جائے گا، اور بقیہ مدت تک پنجاب کے وزیراعلی پرویز الہی ہوں گے۔ تاہم اس فرمائش کو نواز شریف نے قبول نہیں کیا اسی لیے اپوزیشن اور چوہدریوں کے مابین سیاسی ڈیڈ لاک کی سی صورت حال ہے۔ اس لیے اب چوہدریوں سے ہٹ کر دیگر آپشنز پر بھی غور ہو رہا ہے۔‘
معروف سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دو الگ چیزیں ہیں ’اگر تو آپ وضع داری کی بات کرتے ہیں تو میرے خیال میں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گجرات کے چوہدریوں نے میل ملاپ کی حد تک ہمیشہ وضع داری کی سیاست کی ہے۔ اور مہمان نوازی کی ہے۔ لیکن ان کی سیاست 1999 کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اور اس کا برملا اظہار بھی وہ کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ ان کی ایک بڑی طاقت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت جوڑ توڑ میں پہلے ان کی طرف دیکھتی ہے۔‘