2021 کی شاندار ایجادات

2020 کی نسبت 2021 دنیا کے لیے کسی حد تک بہتر رہا۔ طبّی شعبے میں تیزی سے کام کرتے ماہرین اور سائنس دانوں نے انتھک محنتوں کے بعد کووڈ ویکسینز بنائیں جس کے بعد کسی حد تک لوگوں کو اس وبائی مرض سے تحفظ ممکن ہو سکا۔

تاہم طبّی شعبے کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبہ جات میں بھی تحقیق اور تجربوں کام بھرپور انداز میں جاری رہا۔اِسی حوالے سے اس سال ہونے والی کچھ ایجادات کے متعلق معلومات درج ذیل پیش کی جارہی ہیں۔میسنجر RNA ویکسینہم بہت خوش قسمت ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف دو مؤثر ویکسین میسنجر آر این اے پر مبنی ہیں۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو 20 سالوں سے عمل میں ہے۔گزشت سے پیوستہ جنوری میں جب کووڈ-19 کی عالمی وباء بن کر ابھری تو متعدد بائیو ٹیک کمپنیوں میں سائنس دان میسنجر آر این اے کی جانب فوراً مڑ گئے تا کہ ممکنہ ویکسینز بنانے کا کوئی راستہ نکال سکیں۔دسمبر 2020 کے آخر میں جب دنیا بھر میں کووڈ سے 15 لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے تو امریکا ویکسینز کی منظوری دے دی گئی جس کو عالمی وباء کے اختتام کی شروعات کہا گیا۔نئی کووڈ ویکسین ایک ایسی ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں جس کو علاج کے طور پر کبھی استعمال نہیں کیا گیا اور اس میڈیسن کو بدلنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے جو متعدد انفیکشنز والی بیماریوں بشمول ملیریا کے خلاف ویکس سکے۔اور اگر کورونا وائرس نئے ویریئنٹس کے ساتھ سامنے آتا رہے گا تو ان میسنجر آر این اے ویکسین کی با آسانی تجدید ہوتی رہے گی۔جی پی ٹی- 3 (GPT-3)بڑے نچرل-لینگوئج کمپیوٹر ماڈلز جو پڑھنا اور لکھا سیکھتے ہیں وہ مصنوعی ذہانت کی جانب ایک بڑا قدم ہے جو دنیا کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور بہتر انداز میں رابطہ رکھ سکتے ہیں۔جی پی ٹی-3 اب تک کا سب سے بڑا اور سب پڑھا لکھا کمپیوٹر ماڈل ہے جس کی ٹریننگ ہزاروں کتب اور زیادہ تر انٹرنیٹ پر ہوئی ہے۔ یہ ماڈل ناقابلِ یقین حد تک انسانی تصنیف کی نقالی کر سکتا ہے جو اس کو متاثر کن ماڈل بناتا ہے۔لیکن جی پی ٹی-3 یہ نہیں سمجھتا کہ وہ لکھ کیا رہا ہے اس لیے بعض اوقات نتائج بے تُکے اور نامعقول ہوتے ہیں۔اس کے لیے بڑے پیمانے پر کمپیوٹیشنل پاور، ڈیٹا اور ٹرین کرنے کے لیے پیسہ لگتا ہے۔ اور کیوں کہ اس کی ٹریننگ میں انٹرنیٹ پر موجود تصانیف بھی استعمال کی جاتی ہیں جو غلط معلومات پر مبنی ہوتی ہیں اس لیے بعض اوقات یہ جانبدارانہ تحریریں لکھ ڈالتا ہے۔ٹک ٹاک کے تجاویز کردہ ایلگوردمز 2016 میں چین میں لانچ ہونے کے بعد سے ٹک ٹاک دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا سوشل میڈیا نیٹ ورک بن چکا ہے۔ اس ایپ کو اربوں بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے اور یہ کروڑوں صارفین کے استعمال میں ہے۔ایسا کیوں ہے؟ وہ اس لیے کہ ٹک ٹاک کو تقویت دینے والا ’فار یو‘ فیڈ کا ایلگوردم نے لوگوں کے آن لائن مشہور ہونے کا طریقہ ہی بدل دیا ہے۔جہاں دیگر پلیٹ فارم صارف کی جانب سے ڈالے جانے والے مواد کو لوگوں کے اعتبار سے واضح کرتے ہیں، ٹک ٹاک کے ایلگوردم اندھیروں میں پوشیدہ ایک انجان شخص کو رات رات اسٹار بنا دیتے ہیں۔نئے تخلیق کاروں کو جلد نظروں میں لانے کی صلاحیت ہی اس ایپ کی دن دُگنی رات چوگنی ترقی کا سبب بنی ہے۔دیگر سوشل میڈیا کمپنیز اب اپنی ایپس میں یہ فیچر لانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔لیتھیم-دھاتی بیٹریاں(Lithium-metal batteries)برقی گاڑیوں کے ساتھ کڑی مشکلات بھی آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ گاڑیاں نسبتاً مہنگی ہوتی ہیں اور دوسری چیز یہ کہ ان کو آپ کچھ سو میل ہی چلا سکتے ہیں لیکن ان کو چارج کرنے کے لیے گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا ہے جو پیٹرول بھروانے کے وقت سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ری چارج سے متعلق یہ مسئلہ لیتھیم-آئن بیٹریوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ایک سلیکون ویلے اسٹارٹ اپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی بیٹری ہے جو صارفین کے لیے برقی گاڑیاں چلانے کو نہایت سہل کر دے گی۔کوانٹم اسکیپ کی جانب سے بنائی جانے والی اس بیٹری کا نام لیتھیم-میٹل بیٹری ہے۔آزمائش کے ابتدائی نتائج کے مطابق بیٹری برقی گاڑی کی رینج کو 80 فی صد تک بڑھا سکتی ہے اور فوری طور پر ری چارج بھی جا سکتی ہے۔اس اسٹارٹ اپ کی وولکسویگن کے ساتھ ڈیل ہے جس کا کہنا ہے کہ کمپنی 2025 تک اس نئی قسم کی بیٹری کے ساتھ اپنی برقی گاڑیاں بیچے گی۔یہ بیٹری ابھیبھی ایک پروٹو ٹائپ ہے جو کار میں استعمال کی جانے والی بیٹری سے بہت چھوٹی ہے۔ڈیٹا ٹرسٹس(Data trusts)ٹیکنالوجی کمپنیاں ہمارے نجی ڈیٹا کی رکھوالی میں انتہائی درجے کی کمزور ثابت ہوئی ہیں۔ ہماری معلومات لیک کی جاتی ہے، ہیک کی جاتی ہے، بیچی جاتی ہے اور بے شمار بار بیچی جاتی ہے۔شاید مسئلہ ہم میں نہیں بلکہ اس پرائیویسی کے ماڈل کے ساتھ ہے جس کے ساتھ ہم عرصے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک ایسا ماڈل جس میں ہم بطور افراد اپنی پرائیویسی کی حفاظت اور مینیج کرنے خود ذمہ دار ہیإ۔ڈیٹا ٹرسٹس ایک ایسا متبادل راستہ پیش کرتا ہے جو کچھ حکومتوں نے ڈھونڈنا شروع کیا ہے۔ڈیٹا ٹرسٹ ایک قانونی وجود ہے جو لوگوں کے لیے ان کا نجی ڈیٹا جمع کرتا ہے اور ترتیب دیتا ہے۔اگرچہ ان ٹرسٹس کا سانچہ اور وظیفہ ابھی بھی واضح کیے جا رہے ہیں، اب بھی کئی سوالات باقی ہیں۔ڈیٹا ٹرسٹس پرائیویسی اور سیکیورٹی کو در پیش طویل مدت مسائل کے ممکنہ حل کے لیے اہم ہیں۔ڈیجیٹل کانٹیکٹ ٹریسنگ(Digital contact tracing)جب کورونا وائرس دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ایسا لگتا تھا کہ شاید ڈیجیٹل ٹریسنگ ہماری مدد کرسکے گا۔اسمارٹ فون ایپس جی پی ایس یا بلیو ٹوتھ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا ریکارڈ ترتیب دینے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں جن کا حال ہی میں آمنا سامنا ہوا ہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کووڈ پازیٹیو ہوا تو اس شخص کا رزلٹ ایپ میں ڈالا جاسکتا ہے جو دوسرے شخص کو متنبہ کر دے گا۔لیکن ڈیجیٹل ٹریسنگ وائرس کے پھیلاؤ پر اثر انداز ہونے میں بری طرح ناکام ہوا۔ ایپل اور گوگل نے فوری طور پر publicity notification جیسے فیچر نکالے لیکن ہیلتھ آفیشلز کو لوگوں یہ استعمال کرانے میں مشکلات پیش آئیں۔ہائپر-ایکیوریٹ پوزیشننگ(Hyper-accurate positioning)ہم سب جی پی ایس استعمال کرتے ہیں اور اس نے ہماری زندگیاں اور ہمارے کار و بار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔جہاں آج کا جی پی ایس 5 سے 10 میٹرز کے اندر بالکل ٹھیک ہوتا ہے، وہیں نئی ہائیپر-ایکیوریٹ پوزیشننگ ٹیکنالوجیز نے یہ درستگی کچھ سینٹی میٹرز تک لے آئیں ہیں۔ایسا ہونا آئندہ دنوں میں ڈیلیوری روبوٹ اور خود کار ڈرائیونگ کار جو بحفاظت راستہ تلاش کرتے ہوئے منزل پر پہنچ جائیں، کے لیے نئے امکانات واضح کر رہا ہے۔چین کا بائی ڈو عالمی نیویگیشن سسٹم جون 2020 میں مکمل ہوا اور یہ وہ چیز ہے جو ایسا ممکن بنا رہی ہے۔یہ سسٹم دنیا میں کہیں بھی پوزیشننگ کو 1.5 یا دو میٹر کے اندر محدود کر دیا ہے۔ Square Adsence 300X250

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button